وہ اپنے عشق میں کیسا کمال رکھتا ہے
کہ بے رخی میں بھی میرا خیال رکھتا ہے
جو آج میرا نہیں ہے وہ کل میرا ہو گا
کہ ہر زمانہ عروج و زوال رکھتا ہے
عجب نہیں کہ وہ جہاں بھر کو وفا سمجھے
نظر میں میری وفا کی مثال رکھتا ہے
کہاں تلک کو ٰہی دست کر م کی زحمت کرے
تمام شہر ہی دست سوال رکھتا ہے
مری اڑان کے آ گے ہے کس قدر بے بس
یہ آسمان جو ستا روں کا جا ل رکھتا ہے
ترا خیال ہی کچھ مہربان ہے ورنہ
جہا ن مین کون کسی کا خیا ل رکھتا ہے
مقابل صف اعداءہے اس طرح خا ور
کہ تیغ رکھا ہے وہ اور نہ ڈھال رکھتا ہے
Tuesday, June 9, 2009
Subscribe to:
Posts (Atom)