یہ اجنبی سی منز لیں اور رفتگاں کی یا د
تنہا ہیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لاہی ہے اب اڑا کے گے موسموں کی باتیں
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
پھرتے ہیں مثل موج ہوا شہر شہر میں
آواز کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرا ہے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
منیر نیازی
Wednesday, May 27, 2009
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment